استنبول،دمشق: شام اور ترکیہ میں آنیوالے 7.9 شدت کے تباہ کن زلزلے سے 1400 سے زائد افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوگئے تاہم ملبے تلے دبے متاثرین کو نکالنے کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں جن کے حوالے سے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے،ترکیہ میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی،سکول ایک ہفتے تک بند جبکہ پروازیں معطل کردی گئیں ۔
امریکی جیولوجیکل سروے کا کہنا ہے کہ زلزلے کی شدت ریکڑ اسکیل پر 7.9 اورگہرائی 17.9 تھی۔ زلزلے کا مرکز ترکیہ کے جنوب مشرقی صوبے غازیان کے نردوی کے قریب تھا۔زلزلے کے شدید جھٹکے اردن، شام ، قبرص اور یونان میں بھی محسوس کیے گئے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق زلزلے سے ترکی اور شام سمیت دیگر ممالک میں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق شام میں 482 اور ترکیہ میں 912 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔متاثرہ علاقوں میں زلزلے کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا کام جاری ہے۔ زلزلے سے سڑکیں تباہ ہونے اور بارش کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حکام نے زلزلے سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دریں اثناء ترکیہ ایک بار شدید زلزلے سے لرز اٹھا، مختلف علاقوں میں زلزلے کے بعد آدھے گھنٹے تک آفٹر شاکس بھی محسوس کیے گئے اور کئی عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ اس دوران ترک صدر طیب ادگان کا کہنا ہے کہ ترکیہ میں زلزلے سے اموات کی تعداد 912 ہو گئی۔زلزلے سے 2 ہزار سے زائد عمارتیں متاثر ہوئیں، ترکیہ میں زلزلے سے 5 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔2440 لوگوں کو اب تک ریسکیو کیا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ زلزلے کے بعد 45 ممالک نے مدد کی پیشکش کی ہے۔
تاریخ کے بدترین زلزلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فی الحال زلزلے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ہماری پہلی ترجیح ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنا ہے۔ترکی اور شام میں امدادی کارکن ملبے کے نیچے سے زندہ افراد کو نکالنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوآن نے ٹوئٹر پر کہا، ”میں ان تمام ترک شہریوں کے لیے اپنی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں جو زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم جلد از جلد اور کم سے کم نقصان کے ساتھ مل کر اس آفت سے نکل آئیں گے۔“ اس زلزلے کے جھٹکے لبنان، قبرص اور مصر تک بھی محسوس کیے گئے۔
ترک نائب صدر نے کہا ہے کہ ملک بھر کے 10 شہروں و صوبوں میں ایسے سکول ایک ہفتے تک بند رہیں گے جو زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ان شہروں اور صوبوں میں غازی عنتیپ، کہرمان مرعش، ہاتائی، عثمانیہ، آدیامان، مالطیہ، شانلی اورفہ، ادنہ، دیار بکر اور کلس شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہاتائی صوبے سے آنے اور جانے والی پروازیں معطل کر دی گئی ہیں جبکہ کہرمان مرعش اور غازی عنتیپ کے ہوائی اڈے بھی عام پروازوں کے لیے بند ہیں۔ ترک حکومت نے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ موبائل فون استعمال نہ کریں تاکہ امدادی کارکنوں کو رابطوں میں مشکلات نہ آئیں۔
دوسری جانب دونوں ملکوں میں زلزلے کے بعد امدادی سرگرمیاں جاری ہیں جبکہ عالمی مدد کی اپیل کی گئی ہے۔ترک ہلال احمر کے سربراہ نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوراً خون کا عطیہ کریں تاکہ زلزلے کے متاثرین کی جانیں بچائی جاسکیں۔انھوں نے ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ تنظیم متاثرہ علاقوں تک خون کی اضافی سپلائی بھجوا رہی ہے۔ لوگوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ فوراً تباہ شدہ عمارتوں سے نکل جائیں اور امدادی کارکنان کے لیے سڑکوں خالی چھوڑ دیں۔ شام کی فلاحی تنظیم وائٹ ہیلمٹس کے کارکن اسماعیل العبداللہ نے ترک سرحد کے قریب بی بی سی سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’شمال مغربی شام کے مختلف شہروں اور گاوٴں میں کئی عمارتیں زمین بوس ہوگئی ہیں اور زلزلے سے مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔ ہماری ٹیمیں حادثات کے مقامات تک پہنچ رہی ہیں
مگر اب بھی کئی خاندان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہم انھیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمارے لیے یہ بہت مشکل کام ثابت ہو رہا ہے۔’ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری ہماری مدد کرے، ہماری حمایت کرے۔ شمال مغربی شام اس وقت آفات سے متاثرہ علاقہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سب مل کر ہمارے لوگوں کو بچائیں۔‘ ئادھر یورپی یونین اور نیٹو کے مطابق ان کی جانب سے اپنی اپنی امدادی ٹیموں کو ترکی روانہ کردیا گیا ہے ۔وائٹ ہاوٴس کا کہنا ہے کہ اس نے ترک حکام سے رابطہ قائم کیا ہے اور ہر طرح کی مدد کی پیشکش کی ہے۔